کبھی روگ نہ لگانا پیار کا (session1)بقلم ملیحہ چودھری
قسط24
************
گاڑی ایک بہت بڑے بنگلے کے سامنے رکی۔۔۔۔ مائشا نے بڑی حیرت سے بنگلے کو دیکھا..اور پھر اس شخص کے جانب دیکھا جو اب ہورن دے رہا تھا۔۔
گاڑی میں اندھیرا تھا تو اسکو کچھ بھی نہیں دکھائی دیا۔۔اس نے ایک بات پھر باہر دیکھا جہاں اب اس بنگلے کہ اینٹرينس گیٹ دو گیٹ کیپر کھول رہے تھے۔۔۔
جیسے ہی گیٹ کھلا اس شخص نے پھر سے گاڑی سٹارٹ کی اور اندر کے جانب بڑھا لی۔۔ کچھ رقبے پر پھیلا یہ بنگلہ کسی ریاست کے محل سے کم نہیں تھا۔۔۔پورا بنگلہ گولڈن تھیم سے بنا تھا۔اور اپنی خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت بھی۔۔
ویسے تو ممبئی جیسے مایا کی نگری کے شہر میں ان بنگلوں کا ہونا عام سے بات تھی لیکن کی خوبصورتی اس بنگلے کی تھی وہ تو آج تک کہیں نہیں دیکھی تھی۔۔۔
ہر جانب گولڈن تھیم سے بنا یہ بنگلہ ایسے چمک رہا تھا جیسے کی اسکو پتھروں سے نہیں بلکہ پورا سونے سے بنایا گیا ہو۔۔۔
واقع انسان اگر کچھ کرنا چاہے تو وہ پھر اُسکے ہاتھ سے چھوٹ نہیں سکتا۔۔ایک بار تو مائشا کے دل میں خیال آیا کہ ضرور اس بنگلے کو بنانے والے کا انعام بھی بلکل اس بنگلے جیسا خوبصورت ہوگا۔۔۔
پھر اس نے یہ سوچ کر اپنی سوچ جھٹک دی کہ "کیا فائدہ ان سب کا ایک دن یہ سب یہی رہ جانا ہے۔۔گاڑی پورچ میں آکر رکی تھی۔۔دو ملازم آئے اور انہوں نے گاڑی کا گیٹ بہت احترام سے کھولا۔۔
"Tell Shakira that Sahib is calling her.
"شکیرا کو بتاؤ کہ صاحب اسے بلا رہے ہیں۔۔
اس نے اپنے ملازم سے انگلش میں کہا شائد اپنی کسی ملازمہ کے لیے پیغام بھیجا تھا۔۔
"Ok sir...
"ٹھیک ہے سر۔۔۔!
وہ ملازم وہاں سے چلا گیا۔دو منٹ بعد ہی شاکیرا نام کی ملازمہ آئی تھی۔۔اور اپنا سر بہت احترام سے جھکاتے بولی۔۔
"Sir, you missed us.
"سر آپنے ہمیں یاد کیا۔۔۔!!
Yes....
"ہاں۔۔! یہ بی بی جی ہے۔۔انکو روم تک لے کر جاؤ اور ہاں وہ روم جو ابھی ہم نے تیار کروایا تھا اس میں لے کر جانا"۔۔۔
اس نے حکم صادر کیا۔۔ملزمہ نے ہاں میں گردن ہلائی اور پھر مائشا کے جانب دیکھا۔مائشا کے جانب وہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔۔۔ مائشا نے بھی بدلے میں اسکو مسکراتی نظروں سے دیکھا۔۔ میم آئے اس لڑکی نے بہت ہی مہذب انداز میں مائشا سے کہا تھا مائشا نے بھی خاموشی سے گردن ہاں میں ہلاتی اس کے پیچھے چل دی۔۔" تھوڑی دیر میں وہ ایک بہت ہی خوبصورت روم میں تھی۔۔"وہ سب کو نظر انداز کرتی ملزمہ کی جانب پلٹی اور بولی۔۔"جزاکاللہ ۔۔۔!! واش روم کہاں ہے...؟ اور خوبورتی سے پوچھا۔۔"میم آئے میرے ساتھ۔۔وہ لڑکی بولی۔۔"ایک منٹ آپ مجھے میم نہیں بلائے دیکھئے میں بھی انسان ہوں اور آپ بھی اور ویسے بھی آپ تو میری ہم عمر لگتی ہی تو پلیز آپ میرے نام لے لیا کریں مجھے اچھا لگے گا۔۔"مائشا نے اس لڑکی سے کہا تھا۔۔"لیکن چھوڑے میں جب تک یہاں ہوں آپ میرے نام سے بلایا کرے گی۔۔۔"اوکے اس لڑکی نے مائشا کے جانب مسکراہٹ پاس کرتے کہا۔۔" ویسے آپکا کیا نام ہے۔۔؟ شاکیرا نے پوچھا ۔۔۔"مائشا ۔۔۔"بہت پیارا نام ہے آپکا۔۔۔۔ وہ بولی تھی۔۔جزاکاللہ۔۔!!! مجھے واش روم کا بتا دیں مجھے تہجّد پڑھنی ہے۔۔۔"ہممم آئے۔۔"اس نے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔۔ اب شاکیرا اسکو روم کو دکھا رہی تھی۔۔۔" ویسے آپکی عمر کیا ہے۔۔؟ مائشا نے ایک دم ہی شاکیرا سے پوچھا وہ پلٹی تھی اور پھر بہت ہی پرسکون سے جواب دیا چوبیس۔۔۔!!" ل لیکن آپ تو بہت چھوٹی لگتی ہے مائشا کو حیرت ہوئی تھی۔۔" اچھا آپ عمر چور ہے ۔۔اُسکی بات پر شاکیرا مسکرائی ہممم بس یہ ہی سمجھ لیں۔۔"آپکی کیا ہے عمر۔۔؟" شاکیرا نے پوچھا۔۔" اس بار انیس کی ہو جاؤں گی۔۔!" وہ ہ ہ .."اچھا آپ ریسٹ کریں تھک گئی ہوگی آپ ۔۔"شاکیرا نے کہا تھا ۔۔"جی..!! مائشا نے بھی گردن ہاں میں ہلا دی"شاکیرا جا چکی تھی۔۔"مائشا جس چیز سے بچنے کے لیے شاکیرا سے بات کر رہی تھی۔۔" وہ پھر سے ایک بار فلم کی طرح چلنے لگا تھا۔۔۔۔"محبّت کی تھی اس نے وہ بھی بنا کسی مطلب کی اسکو وہ چاہ کے بھی نہیں بھلا سکتی تھی۔۔۔۔"آنکھوں میں آنسوؤں نے ایک سیلاب اکھٹا کر لیا تھا۔۔ہو برسنے کو تیار تھا۔۔۔" وہ آنکھوں سے آنسوں پونچتی واش روم کی طرف بڑھ گئی۔۔"اور وہاں جا کر اس نے بن آواز خوب آنسوؤں کو پانی کے ذرائع بہنے دیا۔۔"جب اُسکا دل کچھ ہلکا ہوا تو اس نے وضو کی تھی۔۔" اور پھر روم میں آئی۔۔جائے نماز کی تلاش میں اس نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔۔"لیکن کہیں پر بھی جائے نماز اسکو نہیں ملی تھی۔۔"اس نے بیڈ پر سے بیڈ شیٹ اُتار کر اسکو بچھائی اور نماز ادا کرنے لگی۔۔۔"آنکھوں سے بھل بھل آنسوؤں گر رہے تھے۔۔"چہرا سرخ ہو گیا تھا اُسکا۔۔" اُسکی باڈی رونے کی وجہ سے ہچکولے لے رہی تھی۔۔۔۔" وہ سجدے میں بہت روئی تھی۔۔ اُسنے سلام پھیر کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے " اور فقط اتنا بولی ۔یا اللّٰہ مجھے صبر دیں اے میرے مالک مجھے اس آزمائش میں کامیابی دیں میرے اللہ تُو سب کچھ جانتا ہے" میں بہت گنہ گار ہوں تیرے در کی بھکاری ہوں مجھے اس دنیا کی محبّت سے آزاد کر دیں۔۔"مجھے اپنی محبّت عطا کر دیں میرے اللّٰہ
آمین۔۔۔۔اس نے چہرے اور ہاتھ پھیرا اور آٹھ کر بیڈ پر آ گئی۔۔" نیند تو اسکو آنی نہیں تھی۔۔"ایک بار پھر وہ پرانی یادوں کو یاد کر کے روتی رہی۔۔"جو باقی کی رات تھی"وہ اُسکی روتے ہوئے ہی کٹنی تھی۔۔۔
**********************
حال»»»»»
سوئی نہیں آپ ۔۔؟ وہ ٹریس پر کھڑی چاند کو دیکھ رہی تھی ۔"تیز تیز چلتی ہوائیں بھی اُسکے اندر کی گھٹن کو کم کر رہی تھی۔۔" شاہزین جو اُسکی وجہ سے لائبریری میں اپنے آفس کا کام کر رہا تھا۔۔۔"قریب رات کے تین ہو رہے تھے جب وہ اپنے روم میں آیا۔۔" اس نے روم میں چاروں اطراف میں دیکھا جب اسکو مدیحہ نہیں دکھائی دی تو وہ سیدھا ٹریس پر آ گیا۔۔" مدیحہ کو یوں چاند کو دیکھتا پا کر اس نے ہر بار کی طرح لمبی سانس لی اور مدیحہ کے پاس ٹریس پر بازوں رکھتا اب وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔" نہیں ..! اس نے ایک نظر شاہزین پر کی پھر سے چاند کو دیکھنے لگی تھی۔۔" کیوں ...؟ اس نے پوچھا" یہ آپ پوچھتے ہوئے اچھے نہیں لگتے ۔۔اس نے تڑک کر جواب دیا۔۔" اوہ گوڈ ۔۔۔؟ یار میں کیسے تمہیں سمجھاؤں۔۔۔؟ تم مجھے کیوں سزا دے رہی ہو۔" جبکہ غلطی میری کچھ بھی نہیں ہے۔۔"وہ آج بہت اُداس اور فکر مند بھی دکھ رہا تھا۔۔" آپکی غلطی ہے "جب مجھے اپنی بہن جیسی بھابی کو ڈھونڈنا چاہیے تھا اس وقت میں شادی کر رہی تھی۔۔" میں نے آپکو کہا بھی تھا کہ ایک بات مائشا کا پتہ چل جائے دیں اُسکے باد کر لیتے ہیں شادی " لیکن نہیں آپکو تو کچھ زیادہ ہی جلدی تھی شادی کی "وہ چیخ ہی تو اٹھی تھی۔۔"اچھا اب تم چاہتی کیا ہو۔۔؟ وہ آہستہ سے اس سے پوچھ رہا تھا۔۔"مدیحہ نے اُلجھن بھری نظروں سے اسکو دیکھا" اور پھر بولی اگر میں بتا دوں گی تو کیا آپ اسکو مان لو گے۔۔؟ وہ اس سے سوال کر رہی تھی۔۔۔ہوں ..!! اس نے گردن ہلائی۔۔" ٹھیک ہے تو آپ مجھے طلاق دیں دے۔۔"اس نے اُسکی آنکھوں میں دیکھتے کہا تھا۔۔"اور شاہزین کی مانو اُسکے زبان سے طلاق جیسے الفاظ کو سن کر ہی جان نکل گئی تھی۔۔۔ اُسکا ہاتھ اٹھا اور مدیحہ کے گالوں پر اپنا نشان چھوڑ گیا تھا۔۔" اُسکے سارے بال کھل کر آگے کے جانب آ گئے تھے" وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے شاہزین کے طرف دیکھ رہی تھی آنکھوں میں آنسوں آ گئے تھے۔۔" شاہزین نے اُسکے جنیب دیکھا اُسکی آنکھوں میں آنسوؤں کو دیکھ کر اس نے مدیحہ کو اپنے اندر بھینچا تھا۔۔" بس اتنا تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔" آج کے بعد کبھی نہیں بولنا کبھی بھی نہیں "اگر آپنے پھر کبھی یہ بولا تو میں۔ میں خود کو مار ڈالوں گا۔۔"وہ اُسکے سر پر اپنے لبوں کو رکھ دیئے تھے۔۔" آپ میری جان ہو وہ جان جو اب سے نہیں بلکہ میری سانسوں میں پچھلے تئیس سالوں سے بستی ہو میں کیسے آپکو خود سے جُدا کر لوں وہ آج مدیحہ اور ایک نیا انکشاف کر رہا تھا۔۔" مدیحہ رونا بھول چکی تھی۔" اور حیرت اور اُلجھن بھری نظروں سے شاہزین کی طرف دیکھ رہی تھی۔"اُسکی آنکھوں میں سوالوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی۔۔" جن کو وہ زبان سے چاہنے کے باوجود بھی نہیں کر پا رہی تھی۔۔"شاہزین نے اُسکی سوال کرتی آنکھوں کو دیکھا تھا " اور پھر مدیحہ کو ٹریس پر پڑی دو کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھاتے اُسکے برابر میں ہی اپنی کرسی کو کھسکا کر بیٹھ گیا۔۔۔" مدیحہ کا ہاتھ تھام کر بولا تھا۔۔" دیکھو میری جان میں مانتا ہوں جو ہوا اسکو نہیں ہونا چاہئے تھا۔"شاہزیب نے اچھا نہیں کیا لیکن ابھی سچائی نہیں کھلی کہ شاہزیب نے ایسا کیوں کیا ہے۔۔؟ اور کو ہوا وہ سب ہونا ضروری تھا۔۔"کیونکہ یہ اللّٰہ نے ہماری قسمت میں پہلے سے ہی لکھا ہوا تھا۔۔" اس کو ہمکو نا چاہتے ہوئے بھی قبول کرنا ہوگا۔۔"کیونکہ یہ ہو چکا ہے۔۔"ہوئے ہوئی چیز کو کبھی بدلہ نہیں جا سکتا۔۔"ہاں اسکو ٹھیک کرنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔۔" ضروری تو نہیں انسان جو چاہے وہ اسکو ضرور ملے۔" ہر کام میں اللّٰہ کی مسلحاٹ ہوتی ہے۔۔"اور اس میں بھی اللّٰہ کی کوئی نہ کوئی مصلحات ہی چھپی ہوگی۔۔" اب جو میں آپکو بتانے جا رہا ہوں اسکو بہت ہی تحمّل سے سننا۔۔"
I hope you understand me
امید کرتا ہوں آپ مجھے سمجھیں گی۔۔" وہ اُسکی آنکھوں میں جھانکتا بولا تھا۔۔۔ سمجھو گی نہ اب وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔" مدیحہ نے گردن ہاں میں ہلائی اور نظروں کو جھکا لیا۔۔"آنکھوں سے ابھی بھی آنسوں بہ رہے تھے۔۔
"مدیحہ آپ کمال چاچو کی بیٹی مہرین آنٹی کی بڑی بیٹی مائشا گڑیاں کی بڑی بہن ہو مدیحہ کمال شاہ۔۔!!
"شاہ حویلی کی بڑی بیٹی"۔۔۔۔۔۔
شھزين اپنی بات بول کر ابھی خموش بھی نہیں ہوا تھا جب وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھی۔۔" اور پتھرائی ہوئی نظروں سے شاہزین کے جانب دیکھا۔۔۔
" یہ یہ آپ کیا بول رہے ہیں...؟
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے م میں تو سلمان شاہ کی بیٹی ہوں ۔۔۔
"ف پھر کمال انکل کی بیٹی کیسے ہو سکتی ہوں ...؟ وہ پتھرائی نظروں سے اسکو دیکھتی اٹک اٹک کر بول رہی تھی زبان بھی اُسکا ساتھ دینے سے قاصر تھی۔۔"میری جان میں سچ بول رہا ہوں۔۔وہ بے بسی کی انتہا پر تھا۔"کوئی ثبوت ہے آپکے پاس۔۔؟ اس نے پوچھا "اس سے بڑا کیا ثبوت ہوگا ۔۔اس نے مدیحہ کے جانب دیکھا۔۔
"میں کیسے یقین کروں ۔۔؟ وہ آنسوؤں کو پوچھتی بولی۔۔۔
" ہممم آپ صحیح بول رہی ہے کہ آپ کیسے یقین کریں میری بات پر۔۔؟
وہ پرسوچ انداز میں بول رہا تھا۔۔۔
"مدیحہ آپکے پاس آپکی پیدائش کی فوٹو ہے۔؟ اس نے پوچھا۔۔۔
"نہیں ۔۔۔!!! اس نے نا سمجھی سے شہزین کے جانب دیکھا ۔۔
"کیوں پوچھ رہے ہے..؟ سوال کیا گیا ۔۔۔
"ہممم۔۔۔!! "اور بھی کوئی بچپن کی فوٹو نہیں ہے آپکے پاس...؟ وہ بہت غور سے اسکو دیکھ کر پوچھ رہا تھا۔۔ مدیحہ کو اُسکا یوں دیکھنا اُلجھن سے دو چار کروا رہا تھا۔۔۔۔ وہ نظریں جھکاتی بولی۔۔۔
"ہاں ہے تب میں دو سال کی تھی تب کی میری بہت سی پکچر ہے۔۔۔
"اس سے پہلے کی کیوں نہیں ہے۔۔۔؟ وہ جانچتی نظروں سے مدیحہ کو دیکھ رہا تھا ۔
وہ اُسکے ان سوالوں سے جھنجھلا گئی تھی۔۔۔
"آپ یہ سب پوچھ کیوں رہے ہیں..؟ "اور مجھے کیا پتہ کیوں نہیں ہے۔۔؟ وہ جھنجھلا کر بولی۔۔
"اچھا۔۔۔!!! "ویسے کبھی اپنے اپنی موم ڈیڈ سے نہیں پوچھا کہ اُنہونے آپکی پیدائش کی فوٹو کیوں نہیں لی۔۔؟ نہیں۔۔۔!!! "کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی جو میں پوچھتی۔۔۔
"ہممم...!! "ایک بار پوچھنا ضرور.. وہ اب اس سے کہہ رہا تھا کہ وہ اپنے موم ڈیڈ سے پوچھے کہ کیوں اُنہونے اُسکے پیدائش کی فوٹو نہیں بنوائی تھی۔۔۔
"آپکے پاس ہے آپکی دو سال کی فوٹو۔۔؟" نہیں یہاں تو نہیں ہے۔۔" گھر پر ہے ۔۔!! اوکے ۔۔!!! "ایک منٹ میں آیا وہ وہاں سے جا چکا تھا۔۔مدیحہ نے اسکو جاتے دیکھا اسکو سمجھ نہیں آ رہا تھا آخر یہ کیا ہو رہا ہے اُسکے ساتھ...؟ ایک بہن جو ہر حالات کو جلدی قبول کر لیتی تھی...وہیں دوسری بہن حالات کو قبول نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔وہ کہتے ہیں نہ" خون بھلے ہی ہماری رگوں میں ایک ہو "لیکن سوچ شخصیات سب الگ ہوتے ہے ۔۔"کوئی قسمت کے لکھے کو قبول کر لیتا ہے تو کوئی قسمت کے لکھے کو اپنے مطابق بدلنے کی کوشش میں رہتا ہے.... لیکن فائدہ صرف اُسکا رہتا ہے جو وقت حالات کے مطابق قسمت کے لکھے کو قبول کر لیتا ہے صبر کر لیتا ہے اور اپنے رب کی راضی میں خود بھی راضی ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔
*********************
آج اسکو مائشا جس حال میں ملی تھی اسکو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اُسکا یہ حال کیوں تھا۔۔؟ مائشا منہال شاہ جس کا نکاح منہال سلمان شاہ کے ساتھ ہوا تھا ۔۔جہاں تک وہ منہال کو جانتا تھا وہ اتنی جلدی تو ساتھ چھوڑنے والا نہیں تھا۔۔" پھر وجہ کیا ہے۔۔۔؟ کیا ہوا ہے۔ ان دونوں کے درمیان جو یہ الگ ہو گئے۔۔؟" اگر الگ ہو بھی گئے ہے تو مائشا کو اپنے گھر واپس جانا چاہیے تھا "یہ یہاں رات کے اس پہر گھر جانے کے بجائے کیوں روڈ پر تھی؟؟ "وہ بھی اتنے خطرناک روڈ پر۔۔۔؟ وہ ہر ممکن کوشش میں تھا کہ کچھ پتہ چلے لیکن کچھ نہیں پتہ چلا اسکو جب سے وہ روم میں آیا تھا اپنے آدمیوں کو لگا رکھا تھا اُسنے کہ اسکو منہال اور مائشا کے درمیان ہونے والی بات کا پتہ لگا سکے لیکن سب بے سود رہا۔۔کچھ ہاتھ ہی نہیں لگا۔۔ غصے سے اُسکا بُرا حال تھا۔۔ پریشانی الگ تھی اپنی محبّت اپنے عشق کو دیکھ کر دل بیختیار ہو گیا تھا ۔۔وہ لڑکی اُسکے وجود میں لہُو بن کر دوڑتی تھی۔۔ پھر کیسا نہ وہ پریشان ہوتا اُسکے لیے۔۔۔ وہ سوچو میں اتنا گم تھا کہ کئی بار دروازہ نوک ہوا تھا ۔لیکن اسکو سنائی ہی نہیں دیا۔۔۔آخری بار دروازہ نوک ہونے کی آواز اتنی شدید تھی کہ وہ سوچ سے باہر نکلا تھا۔۔گھڑی کے جانب دیکھا تین پینتالیس ہو رہے تھے۔۔پھر دروازے کے جانب دیکھ کر بولا۔۔"
کون...؟ "جے میں عالیہ...! جواب موصول ہوا۔۔۔
"کمنگ۔۔۔!!
اجازت دے دی گئی۔۔
اندر آنے والی علیہ تھی۔۔
بلیک اور ییلو رنگ کے لونگ کمیز پہنے اس پر کیپری پہنے سائڈ پر دوپٹہ سیٹ کیے بالوں کی ہائی پونی ٹیل بنائے وہ بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔۔۔
لیکن مقابل zm تھا وہ کیسے اسکو دیکھتا اُسکی آنکھوں میں تو صرف ایک ہی عقش نظر آتا تھا۔۔
وہ بھی کسی اور کا ہو گیا۔۔۔۔ لیکن وہ عقش کبھی دور نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔۔
"ہیلو جے۔۔۔ " ہاؤ آر یو؟؟
اُسنے ایک ادا سے بالوں کو جھٹکا دیا جس سے اُسکے بال آگے کی جانب آکر پھر پیچھے چلے گئے تھے۔
وہ چلتی ہوئی اس سے تین چار قدم کے فاصلے پر رُک گئی تھی۔۔۔
Zm
بیڈ پر بیٹھا تھا عالیہ کو دیکھ کر وہ کھڑا ہو گیا۔۔۔
"آپ یہاں اس وقت؟؟ وہ اُسکے نظرانداز کرتا بولا
"ہممم " وہ دراصل مجھے نیند نہیں آ رہی تھی "سوچا باہر لان کا چکّر لگا آؤں.."پھر آپکے روم کی لائٹ آن دیکھی تو یہاں چلی آئی۔۔۔
" آئی ایم سوری!! "اگر میرا آنا آپکو اچھا نہیں لگا تو میں واپس چلی جاتی ہوں...
وہ ایکٹ کرتی بولی۔۔ "نہیں نہیں !!!" ایسی بات نہیں ہے بسس میں نےاسے ہی پوچھ لیا۔۔
وہ جلدی سے وضاحت دیتے بولا." کوئی بھی zm کا یہ روپ دیکھ کر یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ یہ ورلڈ گینگسٹر ہے " بیٹھیے ۔ اُسنے عالیہ کو بیٹھنے کا کہا ۔ "تھینک یو !! وہ بولتی سامنے پڑے صوفے پر بیٹھ گئی اور اُسکے روم کا جائزہ لینے لگی۔۔
بلاشبہ اُسکا روم اُسکے نام کی طرح بےحد خوبصورت تھا۔۔۔
بلیک اور گرے تھیم کا یہ کمرہ ایک جانب جہاز سائز بیڈ تھا ' بیڈ کے برابر میں ڈراور تھے جن پر لیمپ رکھے ہوئے تھے ' دائی جانب ڈریسنگ ٹیبل تھی۔۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے والی پوری دیوار کانچ کی تھی جن پر بہت ہی خوبصورت پرڈے لگے ہوئے تھے وہ بھی بلیک اور گرے تھیم کے ہی تھے پورا کمرہ نفاست سے سجھایا گیا تھا ۔ اس روم میں جو چیز بہت الگ سے تھی وہ تھی ایک بول سیلف جو بہت الگ سے بالکونی میں کھلنے والی دیوار پر تھی ' وہ براؤن رنگ کی ووڈ سے بنی ہوئی ایک بول سیلف تھی۔۔" چھوٹی سی یہ نوک سیلف جن پر طرح طرح کی بہت ہائی خوبصورت بُکس رکھی گئی تھی ' اُن سب کے درمیان ایک بک بہت ہی خوبصورت تھی ریڈ اور گولڈن رنگ کی یہ کتاب ایسی لگتی تھی جیسے کتاب نہیں بلکہ کوئی مجسمہ ہو وہ روم کا بہت ہی باریکی سے جائزہ لے رہی تھی جب zm نے اسکو مخاطب کیا۔۔
"کیا دیکھ رہی ہو؟؟ وہ چونکی ' اور بولی " نہیں نہیں بس آپکا روم دیکھ رہی تھی "ماشاللہ آپکا کمرہ بہت ہی پیارا ہے۔۔۔ وہ اس روم کو سراہتے ہوئے بولی
"تھینک یو !!
"موست ویلکم !!! وہ سر کو ایک ادا سے خم کرتے ہوئے مسکرائی ۔۔۔۔
"بائے دا وے " آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں؟؟ "کیا ہوا ؟ "سب خیریت تو ہے؟
"ہممم سب ٹھیک ہے " بس ایسے ہی بیٹھا بیٹا سوچ رہا تھا۔۔" ہنننن !!!
ویسے سوچے مت سب ٹھیک کر دیگا اللہ " انشاءاللہ یہ سننا تھا کہ zm کے چہرے پر ننھے ننھے پسینے کی بوندیں۔ آگئی تھی ۔' ایک ڈر ایک خوف سا وجود میں گردش کر گیا تھا " چہرے کے نارمل تاثرات جو ابھی بہت اچھے تھے اب وہ غصے میں تبدیل ہو گئے تھے۔۔۔۔
اُسنے zm کے چہرے کو دیکھا جہاں صرف اور صرف سختی تھی آنکھوں میں آگ کے شعلے بھڑک اٹھے " گیٹ آؤٹ۔۔۔!!! وہ چلّایا وہ اُسکے غصے کو دیکھ کر ہی خوفزدہ تھی۔۔ اُسکی حالت عالیہ سے چھپی نہیں تھی۔۔" آ آپ ۔۔ وہ کچھ بولتی وہ پھر سے دھاڑا "جاؤ یہاں سے ایک بار کا سنائی نہیں دیتا آپکو۔۔ وہ اس پر ایک نظر مارتی وہاں سے اس انداز سے دوڑتی ہوئی نکلی تھی جیسے رو رہی ہو۔۔۔۔
وہ چلی گئی تھی۔۔ اور zm اپنا ڈر اور غصہ کم کرنے کے لیے روم کا چکّر لگانے لگا تھا۔۔ لیکن اُسکا غصّہ تھا کہ کم نہیں ہو رہا تھا وحشت اور بڑھ رہی تھی۔۔۔۔ وہ اپنے روم سے منسلک ڈریسنگ روم میں چلا گیا ۔۔۔۔
*******************
وہ بھاگتی ہوئی اپنے روم میں آئی کمرے کی لائٹ بند کی اور دروازے کو اچھے سے لاکڈ کیا۔۔' وہ ایک بہت اچھی ہیکر تھی۔۔ ہاتھ میں تھامی ڈیوائس کو اوپن کیا ۔۔۔ اور پھر کچھ ٹائپ کرتے ہوئے اس نے وقت دیکھا رات کا تین پچپن کے قریب ہو رہے تھے۔۔" میرے پاس کل دس منٹ ہے۔۔ وہ خود سے بڑ بڑا ئی تھی۔۔۔ جلدی سے اینٹر پریس کیا پورے بنگلے کے کیمرے دس منٹ کے لیے بند ہی گئے تھے۔۔۔ بس اُسکی چپ جو وہ روم کو دیکھتے وقت صوفے پر لگا دی تھی وہ ایکٹو کی اور zm کو دیکھنے لگی۔۔۔ ' وہ ڈریسنگ روم سے جب واپس آیا تو اُسکے ہاتھ میں ایک چابی تھی وہ اس چابی کو گھماتے ہوئے سیلف کی جانب بڑھا ' پھر ہاتھ میں تھامی چابی کو اوپر کیا سیلف میں رکھی وہ ریڈ بک کو ایک ہاتھ سے دوسری جانب سرکایا تھا اُس نے ۔۔۔ بک کے پرے سرکتے ہی وہاں ایک باکس نما بڑا سا ہول دکھا یہ سب عالیہ بہت غور اور باریکی سے دیکھ رہی تھی ۔۔ اُسکی یہ ڈیوائس باقی دو آفیسرز سے جوائنٹ تھی۔۔۔ تو وہ آفیسرز بھی اسکو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔ zm نے اس ہول میں چابی والا ہاتھ اندر کے جانب دیا تھا اور پھر چابی کو لگا کر اس نے وہ ہاتھ ہلکا سے گھمایا جس سے وہ سیلف تھوڑی خود بخود سائڈ میں ہوئی تھی۔۔ ' ایک راستہ اس میں سے نظر آیا تھا ۔۔۔یہ عالیہ کے لیے بلکل بھی نیا نہیں تھا۔۔۔۔ کیونکہ zm جیسے ورلڈ گینگسٹر کے لیے یہ نئی بات نہیں تھی۔۔۔اکثر ایسے گینگسٹر کے پاس ایسی خوفیاں جگہ لازمی پائی جاتی ہے کیونکہ وہ لوگ ایسی جگاہوں میں اپنے ثبوت وغیرہ چھپاتے تھے۔۔۔۔ یہ ساری کارروائی صرف دس منٹ کی تھی وقت ختم ہوا اُسکی ڈیوائس بند ہو گئی تھی اور کیمرے آن ہو گئے تھے۔۔۔ اس نے بلیو ٹوتھ کو پریس کیا "ہیلو سر اب کیا حکم ہے آپکا میرے لیے...؟ اس نے پوچھا۔۔۔ " اب آپکو کسی بھی طرح سے اس روم کی تلاشی لینے ہے " جو بھی س ڈاکیومنٹ آپکو ملے اسکو وہاں سے اوریجنل کاپی ہمیں بھیجو اور وہاں جعلی رکھ دو ایک اور بات zm کو بلکل بھی شک نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔" اوکے سر !! وہ فرمابرداری سے بول کر کال کاٹ چکی تھی۔۔۔۔ "اب اسکو آگے کا لحیہ عمل طے کرنا تھا ۔۔۔۔۔ اُسنے سامان کو اٹھا کر اپنے ہینڈ بیگ میں ڈالا۔۔ اور لیٹ گئی کیونکہ صبح کو اسکو شاپنگ پر جانا تھا۔۔۔
************************
اگلے دن کی صبح بہت نکھری نکھری سی تھی۔۔ گرمیوں کی صحرا جیسی تپتی دھوپ گرمی کی وجہ سے لوگوں کا بُرا حال کر رہی تھی معمول کے مطابق سب ہی اپنے اپنے کام کر رہے تھے۔ کوئی اپنی مزدوری تو کوئی آفیس میں بیٹھا پی سی پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا ۔۔ آج کی ہماری نئی نوجوان نسل اپنی زندگی کا ایک حصہ گزارنے کے لیے یونیورسٹی جا چکے تھے ۔۔۔ چھوٹے چھوٹے بچے اسکول میں اپنی ٹیچر کا سر کھا رہے تھے ۔۔۔۔ ہر شخص چاہے چھوٹا ہو یا بڑا سب کام ہی کر رہے تھے ۔۔۔ آج کا دور ایسا ہو گیا کہ کوئی بھی تو فری نہیں ہے .. سب ہی کام میں اس قدر مشروف ہے کہ کسی کو کچھ نہیں پتہ کہاں کیا ہو رہا ہے؟ کون مر رہا ہے کون جی رہا؟؟ یہ تو بھلا ہو سائنس دانوں کا جنہوں نے اس مشروفیات کی غرض کی دنیا میں ٹی وی کو بنا دیا تاکہ لوگوں کو کہیں نہ جانا پڑے اور گھر بیٹھے ہی پوری دنیا کی انفارمیشن ملتی رہے۔۔۔۔ وہ شاپنگ کے لیے آئی تھی۔۔ بی امّاں کو وہ بتا کر آئی تھی کہ وہ شاپنگ پر جا رہی ہے۔۔ شاپنگ تو صرف ایک بہانہ تھا ۔۔۔ اسکو آج ایک بہت ضروری میٹنگ اٹینڈ کرنی تھی۔۔ اب جب وہ میٹنگ تو اٹینڈ نہیں کر پائی تو وہ اب ریسٹورنٹ میں بیٹھی کسی کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔۔ اس نے zm کا یقین اس قدر پختہ کیا ہوا تھا اپنے حوالے سے کہ وہ اسکو کہیں آنے جانے سے نہیں روکتا تھا اسکو zm کے چار مہینے گزر گئے تھے۔۔۔ آج بھی اسکو وہ دن یاد تھا جب zm کے گھر اُسکی پہلی صبح تھی۔۔۔ وہ بعد سے اٹھی ہی تھی جب دروازہ کھولتی ایک ملازمہ اندر آئی وہ اُسکے سامنے یہ تو شو نہیں کر سکتی تھی کہ بلکل ٹھیک ہے۔۔ ہے تو وہ بھی zm کی ملازمہ ہی وہ جیسے ہی بیڈ سے آٹھ کر واشروم میں جانے لگی تو اسکو ایک دم سے چکّر آیا وہ اس سے پہلے گرتی جب دو ہاتھوں نے اسکو مضبوطی سے تھاما " دیکھ کر آہستہ سے۔۔۔ " اور آپ کیا کھڑی کھڑی میرے منہ کو دیکھ رہی ہے ؟؟ دکھائی نہیں دے رہا ان کی طبیعت ابھی ٹھیک نہیں ہے اور اپنے ان کو انہی کے حال پر چھوڑ دیا وہ ملازمہ پر چلّایا ۔۔ عالیہ جو اسکو پکڑے کھڑی تھی سہم کر وہ جھٹکے سے دور ہوئی اُس سے۔۔ zm نے جب اسکو خود سے یوں سہم کر دور ہونا محسوس کیا تو اُسنے اپنی آواز کو نرم اور آہستہ کرتے بولا "آئندہ کبھی ایسی غلطی نہیں کیجئے گا جائے اب یہاں سے.. پھر وہ عالیہ کی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔ "سوری ..." آپ ٹھیک ہے..؟ عالیہ نے اسکو بہت غور سے دیکھا اور دل میں ایک دم گواہی دی کہ" یہ شخص بلا وجہ تو کسی کو نکسان نہیں پہنچا سکتا... کچھ تو ماضی ہے اسکا اب وہ پکّا ارادہ بنا چکی تھی ۔۔ کہ اس شخص کا ماضی وہ جان کر رہے گی۔۔۔۔" جی !! وہ فقط اتنا بولی تھی "اوکے !!" آپ فریش ہو جائے جب تک میں امّاں کو بھیجتا ہوں.... "جو بھی پروبلم ہے آپ انکو بتا سکتی ہے۔۔۔ عالیہ نے گردن ہاں میں ہلا کر باتھرُوم کے جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔ وہ بھی روم سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔
*************************
"اوۓ میڈم کیا حال ہے؟؟ وہ اس آواز پر اپنے خیالوں سے چونکی تھی "بھئی آج کل بہت انجوئے کر رہی ہو۔۔ شہریار اُسکے سامنے والی چیئر پر بیٹھتا شوخی سے بولا ۔۔ عالیہ نے جب اسکو دیکھا تو حلق تھا کڑوا ہو گیا۔۔۔ " تُم ؟؟" تُم کو کس پاگل نے بھیج دیا؟؟ وہ غصے سے چلّائی۔۔ ھاھاھاھا "
seriously ...
ھاھاھاھا " تمہیں ایسا لگتا ہے کہ سر پاگل ہے ؟؟ "ٹھیک ہے !! "میں سر کو فون کر دیتا ہوں کہ سر آپکی مس عالیہ بول رہی ہے کہ" کس پاگل نے مجھے یہاں بھیج دیا؟؟ وہ مسکراہٹ دباتے موبائل کو نکلنے لگا تھا "ارے ارے یہ میں نے کب کہا؟؟ اچھا وہ تو میں تمہیں دیکھ کر ایکسائٹڈ ہو گئی تھی اس لیے زبان پھسل گئی۔۔ عالیہ نے اسکو دیکھ کے آنکھیں پٹپٹا کر کہا " ھاھاھاھا "تُم کب سے مجھے دیکھ کر اکسائٹڈ ہونے لگی ہو؟؟؟ آئی کین بلیو ڈیٹ ۔۔ وہ چیئر سے سر ٹیکاتے ہوئے بولا وہ آج اتنے دن بعد اسکو دیکھ رہا تھا تو یہ موقع کیسے چھوڑ دیتا اسکو سکون ملتا تھا اسکو پریشان کرنے میں " ویسے تُم لڑکیاں ہوتی بہت ڈرپوک ہو ... وہ آنکھ دباتے بولا ۔۔۔
"Ohhhhhh really......
آپکی انفارمیشن کے لئے اگر ہم ڈرتی نہ تو کوئی جھانسی کی رانی ہوتی نہ جھودھا بائی ہوتی اور نہ ہی رضیہ سلطانہ ہوتی سمجھے۔۔۔ اس نے بھی جیسے حساب برابر کیا " اور اب مجھے ہی دیکھ لو میں اگر ڈرتی تو یہاں zm جیسے ورلڈ گینگسٹر کے درمیان نہیں ہوتی.. وہ اکڑ کر بولی۔۔۔ "اچھا اب وہ کام کرو جس کو کرنے آئے ہو... وہ بولی "ہممم... اس نے ایک میموری اُسکے جانب بڑھائی پھر بولا۔۔ " یہ میموری ہے "اسکو اپنے zm کے روم میں ایسی جگہ لگانی ہے جہاں اسکو پتہ نہ چلے۔۔ ٹھیک میں کر دنگی۔۔۔ یہ لو اس میموری کو سر کو دے دینا " اور یونس بولنا کہ میں بہت جلد سارے ثبوت اُنکے حوالے کر دوں گی " اوکے اب میں چلتی وہ کھڑی ہوتی بولی وہ جانے لگی تھی جب اُسنے آواز دی ۔۔ "سنو ..!! وہ پلٹی وہ کچھ وقفہ بعد اسکو دیکھتے بولا ۔۔" اپنا خیال رکھنا ۔۔ وہ ہلکا سا مسکرائی " آپ بھی ۔۔۔ اور ریسٹورینٹ سے نکلتی چلی گئی۔۔۔ وہ وہاں کھڑا اسکو دیکھتا رہا جب تک وہ اُسکی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوئی۔۔۔۔ پھر وہ بھی کچھ ٹائپ کرتے ہوئے بل پے کیا اور چلا گیا کسی نے یہ منظر بہت غور سے دیکھا تھا۔۔۔۔ _کون تھا وہ شخص جس نے انکو دیکھا تھا؟؟
****************